کراچی؍ اسلام آباد (سٹاف رپورٹر؍وقائع نگار خصوصی؍خبرنگار خصوصی)احتساب عدالت نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کو یکم مارچ تک جسمانی ریماند پر نیب کے حوالے کردیا جبکہ پیپلزپارٹی نے گرفتاری کیخلاف قومی اسمبلی میں شدید احتجاج کیا، سندھ کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے ۔تفصیلات کے مطابق نیب حکام نے گزشتہ روز سخت سکیورٹی میں سراج درانی کو عدالت میں پیش کیا۔ جیالوں نے پھول برسا کر سراج درانی کا استقبال کیا۔قائم علی شاہ، شہلا رضا، سعید غنی و دیگر نے سراج درانی سے ملاقات بھی کی۔دوران سماعت سراج درانی کے وکیل شہاب سرکی نے کہا جو تفصیلات مانگی گئیں، وہ فراہم کیں،خواتین سے بدتمیزی کی گئی، گھر میں جس طرح کارروائی کی گئی وہ غیر قانونی ہے ۔ عدالت نے وکیل صفائی سے کہا اہل خانہ سے بد تمیزی سے متعلق درخواست دیں۔عدالت نے سراج درانی کو گھر کا کھانا، ادویات فراہم کرنے ، اہلخانہ سے ملاقات کرانے کی ہدایت کردی۔پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج درانی نے کہا میں جیالا ہوں، ڈرتا نہیں۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سراج درانی کی گرفتاری اور نیب اہلکاروں کی ان کے گھر کی خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا صوبے کا وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی میں سراج درانی کی فیملی کو نیب کی دہشتگردی سے نہیں بچاسکا۔انہوں نے کہا صوبے میں گورنر راج کا کوئی امکان نہیں ۔انہوں نے بتایاجمعہ کو سندھ اسمبلی کا اجلاس بلالیا اور سراج درانی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کردیئے ہیں، گرفتاری پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔منظور وسان نے کہا سراج درانی کو اسلام آباد میں گرفتار کرکے کیا بتانا چاہ رہے ہیں؟ احساس محرومی پہلے ہی تھا، اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا نیب تحریک انصاف کا آلہ کار ہے ،اگر نیب دوران تحقیقات گرفتار کرسکتی ہے تو وزیراعظم کو بھی گرفتار کیا جائے ۔ادھر حیدرآباد،میرپورخاص،بدین ،لاڑکانہ،ٹھٹھہ ،نواب شاہ ،پنوعاقل و دیگرشہروں میں پیپلزپارٹی کے کارکن سڑکوں پرنکل آئے اور حکومت ونیب کیخلاف نعرے بازی کی۔ گڑھی یاسین میں شڑڈاؤن ہڑتال کی گئی۔قومی اسمبلی کا گزشتہ روز اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے سراج درانی کی گرفتاری کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔پیپلز پارٹی کے ارکان بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک ہوئے اور نشستوں سے اٹھ کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کیا اور شدید نعرے بازی کی۔خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اداروں پر آنچ نہیں آنے دیں گے ، ہمارے احتجاج کو صرف لفظی جنگ نہ سمجھا جائے ، ہم گلی گلی میں احتجاج کریں گے ۔وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے خورشید شاہ کے نکتہ اعتراض کے جواب میں کہا کوئی منتخب نمائندہ قانون سے بالاتر نہیں، پارلیمنٹ اور جمہوریت کسی کی بدعنوانی کے لئے ڈھال نہیں بن سکتی، اپوزیشن کو احتساب پر اعتراض ہے تو عدالتوں میں جائے ۔ پرویز اشرف نے کہا چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، صوبے کے عوام اور کابینہ سب احتجاج کر رہے ہیں۔متحدہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ اور شیری رحمٰن نے احتساب کی کارروائیوں کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا اورکہا کہ کیا سپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے خلاف بھی سندھ اسمبلی کے سپیکر کی طرح کا رویہ اختیار کیا گیا؟ سینیٹ میں بھی شدید احتجاج کیا جائیگا،بالآخر سڑکوں پر آ جائیں گے ۔پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ نیب غیرجانبدار ادارہ نہیں رہا، پنجاب میں نیب ملزموں کو شایان شان انداز میں پراڈو میں بٹھا کر لاتا ہے جبکہ سندھ میں سپیکر کو بکتربند گاڑی میں بٹھا کر عدالت لایا جاتا ہے ۔سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا سندھ کے اداروں کے تقدس کو قبول نہیں کرینگے تو ہم بھی وفاق کے تقدس کو قبول نہیں کرینگے ۔سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر بہرہ مند تنگی، سینیٹر روبینہ خالد پر مشتمل پیپلزپارٹی کے وفد نے چیئرمین سینیٹ سے ملاقات بھی کی اور سراج درانی کی گرفتاری کے حوالے سے تحفظات سے آگاہ کیا۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر سراج درانی کی بغیر ثبوتوں کے گرفتاری نامناسب، جمہوریت پر حملہ ہے ۔ خواجہ آصف نے کہا وزیراعظم نے اپنے ارکان کو کہا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ عوام کو سچ نظر آئے ، وزیراعظم کی انا ہمالیہ سے بھی اونچی ہے ، ہم سسٹم کو بچانا اور چلانا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی کوئی نیت نہیں۔احسن اقبال نے کہا گیس اور بجلی کے بلوں سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں،نئے پاکستان کی فلم میں جنت کا وعدہ کرکے قوم کوجہنم میں دھکیل دیا گیا،یہ حکومت پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے ، پاکستان کو معاشی طور پر 700 سے 1000 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے ۔رانا ثناء اﷲ نے کہاسپیکر صاحب پر پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کا پریشر ہے ۔