اسلام آباد ، راولپنڈی(سپیشل رپورٹر ، نیوز ایجنسیاں )ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں ، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ، یہ سازش پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی، امریکہ نے فوجی نہیں اڈے مانگے ، اگر مانگتے تو فوج کا بھی وہی جواب ہوتا جو وزیراعظم کا تھا،آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع لیں گے نہ کبھی مارشل لا آئیگا، کردار کشی قبول نہیں،پارلیمنٹ،سپریم کورٹ، افواج جمہوریت کے محافظ ہیں،آرمی چیف رواں سال نومبر میں ریٹائر ہوجائیں گے ، فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ۔ پریس بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے ،آئندہ عام انتخابات کب ہونا ہیں اس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں نے کر نا ہے ،تعمیری تنقید مناسب ہے ، بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کامیاب نہیں ہو گی۔وزیر اعظم آفس کی طرف سے آرمی چیف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کچھ بچا ئو کی بات کریں ، یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہ تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں پر یہ تین آپشنز ڈسکس ہوئے ، ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد تھا، دوسرا وزیراعظم کا استعفیٰ تھا اور تیسرا آپشن یہ تھا کہ اپوزیشن عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشنز کی طرف چلے جائیں،ہم تیسرے آپشن کو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے پاس گئے ، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم اب نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے پر عمل کریں گے لیکن کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیا گیا اور نہ رکھا گیا،آرمی چیف ناساز طبیعت کے سبب وزیراعظم کی حلف برداری میں نہ جاسکے ، 9 اپریل کی رات آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوئی ، بی بی سی نے بہت ہی واہیات سٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا،میجر جنرل بابر افتخار نے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں ، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے ، سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے ، لوگوں کے سیاست اور نیشنل سکیورٹی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے ، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں ، اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنا پڑیں گے ، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے ،ہم نے جو جنگ لڑی ، وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ، مشرقی بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ، بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کیے جاتے رہے ہیں، اس حوالے سے اہتمام بھی رہتا ہے ،فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ فوج یونٹی آف کمانڈ کے فیکٹر پر چلتی ہے ، چیف آف آرمی سٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے ، آج تک اس میں تبدیلی آئی نہ کبھی آئے گی، نیشنل سکیورٹی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے ، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اسے یقینی طور پر نیشنل سکیورٹی کو نقصان پہنچے گا، پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، جس دن نئی حکومت آئی اس دن سٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حدتک استحکام آرہا ہے ، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا، امریکی انخلا سے افغانستان میں خلا آیا تھا، ابھی تک وہاں کی موجودہ حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جس کا فائدہ دہشتگردوں نے اٹھایا، میں کسی ملک کا نام نہیں لوں گا لیکن اگر سی پیک کسی ملک کے مفاد میں نہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو موخر کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن الحمد ﷲ سی پیک جاری ہے ، اس کے تحفظ کی ذمہ داریاں پاک فوج خود سرانجام دے رہی ، جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے ہم نے اس دوران سی پیک کی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا، مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز، جوانوں نے مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنایا، اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97 آفیسرز اور جوانوں نے شہادت نوش کی ، ہماری جنگ ان شا ء اﷲ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی ، عوام کی حمایت کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے ، افواج پاکستان اور اسکی قیادت کے حوالے سے ایک منظم پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے اور حتی کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے معاشرے میں عوام اور فوج کے درمیان تقسیم اور انتشار پھیلایا جا رہا ہے ، جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کر سکا، وہ کام ہم اب بھی نہیں ہونے دیں گے ، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، بہتر ہو گا کہ فیصلے قانون پر چھوڑ دیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں عسکری قیادت کا موقف بھرپور طریقے سے دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد اس اجلاس کا ایک اعلامیہ جاری ہوا، اجلاس میں کیا بات ہوئی میں وہ ڈسکس نہیں کر سکتا ، اجلاس کے اعلامیے کو اگر دیکھیں تو جو کچھ اس اجلاس میں طے ہوا وہ اس اعلامیے میں موجود ہے ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات ایسی دھمکیوں اور سازشوں کے خلاف چوکنا ہیں اور اس کے خلاف کام کررہی ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے ، اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکی آنکھ نکال دی جائے گی ، اس میٹنگ کے منٹس کو حکومت ڈی کلاسیفائی کر سکتی ہے اور ایک دو روز قبل وزیراعظم نے کہا کہ وہ پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے اور مسلح افواج کے سربراہ اس اجلاس میں بھی جا کر وہی اِن پٹ اب بھی دے دیں گے ،جوہری تنصیبات اور اثاثوں پر عمران خان کے بیان پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمیں جوہری اثاثوں کے حوالے سے تھوڑا محتاط رہنا چاہیے ، یہ کسی ایک سیاست قیادت کے ساتھ منسلک اور نہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو کوئی خطرہ ہے ، آرمی چیف کا عمران سے بہت اچھا ذاتی تعلق تھا ،نیوٹرل لفظ شاید صحیح طریقے سے فوج اور اداروں کے موقف کی وضاحت نہیں کرتا، ہمارا آئینی اور قانونی کردار کسی قسم کی سیاسی وابستگی یا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ، پچھلے 74سال میں تمام سیاسی جماعتوں کا فوج سے ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ، اب ہم نے اس کو عملی جامہ پہنایا، جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیاسی قیادت سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں، میں کبھی کسی کے پاس نہیں گیا تو مجھ سے کیوں آپ بار بار ملنے آتے ہیں، اس سے پہلے گلگت بلتستان پر ایک اجلاس میں بھی تمام سیاسی قیادت کی موجودگی میں یہ بات ہوئی تھی اور کسی نے کہا تھا کہ آپ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم سیاست سے بالکل دور ہیں ، پچھلے ضمنی انتخاب میں کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فوج کی طرف سے مداخلت کی گئی، بلدیاتی انتخابات میں کسی نے کوئی الزام نہیں لگایا ، سابق وزیراعظم نے دورہ روس سے قبل اعتماد میں لیا تھا، وہ جب روس گئے تھے تو ادارہ جاتی رائے مانگی گئی تھی اور فوج اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی کہ جانا چاہیے ، اس دن کسی کے خام وخیال میں نہیں تھا کہ جس دن وزیراعظم وہاں ہوں گے ، وہ اسی دن جنگ کا آغاز کردیں گے جو بہت شرمندگی کا باعث تھا، پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے ، عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں ۔سیاسی جماعتوں کو این آر او دینے کے سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے ، انتشار کے لیے ریٹائرڈ افسران کے جعلی آڈیو پیغام پھیلائے جارہے ہیں، پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ادارے کارروائی کررہے ہیں، ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے بلکہ ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے ، جلسے اور ریلیاں جمہوریت کا حصہ ہیں ۔