اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی، این این آئی) صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہاہے بدعنوانی پرقابو پائے بغیر پاکستان ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا، پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے ۔ ایوان صدر میں انسدادبدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں استحصال سے زیادہ کرپشن کا ہاتھ تھا، جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو ہمارے چورہمارے اوران کے چوران کے ساتھ رہے ۔ بدعنوانی تھی، ہے اورمستقبل میں بھی ہوگی ، حکومت اورادارے کرپشن کم کر سکتے ہیں لیکن اس پر مکمل طورپرقابوپانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ خداخوفی اوراحساس ذمہ داری ایسی خصوصیات ہیں جو کرپشن کے خاتمے میں کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئر مین نیب جسٹس ( ر) جاوید اقبال نے کہا جس نے کرپشن کی ہے اسے حساب دینا ہوگا، 70 سی سی موٹر سائیکل رکھنے والے سے پوچھ لیا دبئی میں ٹاور کہاں سے آئے تو کیا گستاخی ہوگئی ؟ حساب مانگنا جرم ہے تو یہ جرم ہوتا رہے گا، بیورو کریسی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نہ بنے ، نیب کو سیاست میں گھسیٹا جارہا ہے ، ایک ایک گھنٹے تک پارلیمنٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، نیب کو برابھلا کہہ کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا وقت گزر گیا، صاحب اقتدار رہنے والے شاید بھول گئے یہ عہد مغلیہ نہیں، اب ظل الہٰی کا دور گزر چکا، پاکستان کے عوام معصوم اور سادہ لوح نہیں، انہیں اجالے اور اندھیرے کے فرق کا پتہ ہے اگر کرپشن پر سزائے موت مقرر ہوگئی تو ملک کی آبادی بہت کم ہوجائیگی،موجودہ حکومت سے اختلاف ہے نہ اتحاد و محبت،نیب کی وفاداری ریاست کے ساتھ ہے ، کرپشن کرنے والے کو جواب دینا ہوگا۔ چیئرمین نیب نے کہا گزشتہ ایک سال میں ماضی کے اور موجودہ ارباب اختیار کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگیا ہوں کہ جو کریگا وہ بھرے گا، ہر آدمی جس نے کرپشن کی ہے اسے حساب دینا ہوگا، گزشتہ 30 سال سے برسراقتدار لوگ شاید فراموش کرگئے کہ یہ عہد مغلیہ اور شہنشاہوں کا دور نہیں، اب ظل الٰہی کا دور ختم ہوچکا اور عام آدمی کو بھی پوچھنے کا حق ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا اور نیب کو تو یہ قانونی حق حاصل ہے ۔ کسی کی عزت و نفس کو ٹھیس نہ پہنچے یہ سامنے رکھ کر پوچھا جاتا ہے لیکن پوچھا جائے تو جواب دینا فرض ہے اتنا حساس بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ پاکستان 90 ارب ڈالر کا مقروض ہے ، اگر اخراجات کے حوالے سے پوچھ لیا تو کیا برا کیا؟ نیب کیخلاف جارحانہ مذموم پراپیگنڈا کیا گیا تاکہ مایوسی پھیلے ، ان عناصر کو میں بتاتا ہوں کہ عوام کو سب پتہ ہے کون اندھیرے پھیلا رہا ہے ،عوام اتنے معصوم اور سادہ نہیں کہ اچھے برے میں تمیز نہ کرسکیں، نیب اپنا کام جاری رکھے گا آپ پروپیگنڈا کریں یا نہ کریں، نظام حکومت میں بیوروکریسی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اگر ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہوجائے تو تھراپی تو کرنی پڑتی ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ اور سابق وزرائے اعظم سمیت نیب میں جن ملزمان کے خلاف مقدمہ چل رہے ہیں انہیں تمام سہولیات دی جاتی ہیں، نیب کے سادہ کمروں میں زندگی کی ہر سہولت موجود ہے ، مطالعے ، نماز، کھانے پینے اور طبی سہولیات کا معقول انتظام ہے ۔ کوئی شخص وزیراعظم، وزیراعلیٰ، چیف سیکرٹری یا جو کچھ بھی تھا، اب اسے قانون کا سامنا کرنا پڑیگا، انہیں چاہیے کہ نیب کے خلاف پروپیگنڈے کی بجائے اپنے کیس میں توانائی صرف کریں تاکہ بہتر دفاع پیش کرسکیں۔چیئرمین نیب نے کہا موجودہ حکومت سے اختلاف ہے نہ اتحاد و محبت ہے ، ایک وضاحت ضرور کروں گا کہ نیب مقدمات میں سزاؤں کا تناسب 7 فیصد نہیں بلکہ 70 فیصد ہے ، حکومت سے یہ گزارش کی تھی کہ جب نیب کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو ان افراد سے نہ پوچھیں جن کے خلاف ریفرنس دائر ہوچکے ہیں اور تحقیقات چل رہی ہیں، بلکہ ان سے پوچھیں جو نیب میں مطلوب نہیں تاکہ وہ آزادانہ رائے دیں، مجھے معلوم نہیں کہ میری یہ جسارت حکومت کو بری لگی اور اخبارات نے چھاپا کہ حکومت بہت ناراض ہے ، تو میرا خیال ہے کہ اس میں ناراضی والی بات نہیں اور حکومت کو اپنا دل بڑا رکھنا چاہیے ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ حکام سے اگر سوئی کی کرپشن بھی ہوتی ہے تو وہ قیامت کے دن جواب دہ ہیں، لیکن یہاں تو جہازوں اور ریلوے کے انجنوں کا پتا نہیں جس کا جو جی چاہے وہ کررہا ہے ، اگر نیب نے پوچھ لیا کہ جہاز کہاں گیا تو کوئی زیادتی کی بات نہیں۔ ہم بدعنوانی کے خاتمے کیلئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ہر شخص احتساب چاہتا ہے مگر وہی شخص یہ بھی چاہتا ہے احتساب کے عمل میں اس کی طرف نہ دیکھا جائے ۔ نیب کا کسی سیاسی فرد سے کسی قسم کا تعلق نہیں، کسی سے ہدایت لیتا ہے نہ ہی انتقامی کارروائیاں کرتا ہے ۔ نیب اپنی مکمل دیانتداری کے ساتھ اختیارات استعمال کررہا ہے ۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نیب کا ہر اقدام اس کے عوام اور ریاست پاکستان کیلئے ہے ۔