اسلام آباد(راجہ کاشف اشفاق،92نیوز رپورٹ،نیٹ نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی منگل تک طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرکے انہیں 20.20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیدیا۔دوران سماعت 3 بار وقفہ کیا گیا،حکومت نے لیگی قائد کی صحت کی ذمہ داری لینے سے بھی انکار کردیا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کیلئے شہباز شریف کی درخواست کی سماعت کی۔جسٹس عامر فاروق چھٹی پر ہونے کے باعث بینچ کا حصہ نہیں تھے ۔ معاملے پر ایک روز قبل بھی سماعت ہوئی تھی اور مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی تھی تاہم نواز شریف کی بگڑتی صحت کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے سزا معطلی کی سماعت ہفتے کو ہی کرنے کی متفرق درخواست دائر کردی تھی۔ درخواست کے ساتھ نوازشریف کی تمام بیماریوں کی تفصیلات اور میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کی گئی تھیں جن کودیکھتے ہوئے عدالت نے معاملے کوگزشتہ روز ہی سماعت کے لیے مقرر کیا۔دوران سماعت نواز شریف کی نمائندگی کرنے والے وکیل خواجہ حارث نے بتایانواز شریف کو گزشتہ رات معمولی ہارٹ اٹیک ہوا، کل کے بعد سے ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے اوران کی جان کو خطرہ ہے ۔جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا پہلے جو میڈیکل رپورٹ جمع کرائی اس کے بعد طبیعت کی صورتحال کیا ہے کہ درخواست دائر کرنی پڑی، کل میڈیکل رپورٹ کھولی گئی، پڑھی گئی، آج کی نوبت کیوں آئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا اگر طبیعت انتہائی تشویش ناک ہے تو اس بارے میں آگاہ کیجیے ۔ جو رپورٹ کل پیش کی گئی اس کے علاوہ اگر کوئی رپورٹ ہے جس میں ان کی طبیعت کی صورتحال بیان کی گئی ہو تو بتائیے ۔وکیل صفائی نے بتایا کل جو رپورٹ پیس کی گئی وہ 24 اکتوبر کی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا نواز شریف کو معمولی نوعیت کا ہارٹ اٹیک ہوا۔ وکلا کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل عدالت میں پیش کی گئی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا فریقین نے مخالفت کی، جس پر وکیل نے بتایا زیادہ مخالفت نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہاڈویژن بینچ نے معاملے کو منگل کے لیے رکھا تاہم سزا یافتہ قیدی کی طبیعت اگر ناساز ہے تو صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کرسکتی ہے ۔ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے ، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلاکر پوچھ لیتے ہیں۔میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویش ناک ہے ۔چیف جسٹس نے کہارجسٹرار آفس نے بتایا ٹی وی چینلز پر ڈیل سے متعلق خبریں نشر کی گئیں۔عدالت نے چیئرمین پیمرا، 2 ٹی وی پروگرامز ’بریکنگ نیوز ود مالک‘ اور اینکر سمیع ابراہیم کو نوٹس جاری کیے ، ساتھ ہی پروگرام میں شرکت کرنے والے عامر متین، کاشف عباسی اور حامد میر کو بھی نوٹس جاری کردیئے گئے ۔ عدالت نے وزیراعظم ، وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہاکوئی نمائندہ مقرر کرکے 4 بجے تک عدالت بھجوائیں۔4 بجے کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا اینکرپرسنز عدالت آئے ہوئے ہیں، روسٹرم پر آجائیں جس پر تمام اینکرز پیش ہوئے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاآپ تمام اینکرہمارے لیے قابل احترام ہیں، بڑی معذرت سے آپ کو بلایا ہے ، عدالت نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، جب ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پر آتی ہے ۔کیس بعد میں عدالت میں آتا ہے اور میڈیا ٹرائل پہلے ہوجاتا ہے جس کا دباؤ عدالت پر آتا ہے ، سوشل میڈیا پر بھی ججز کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے ۔سمیع ابراہیم نے وثوق سے کہا ڈیل ہو گئی ہے ، کیا وزیراعظم اورعدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہیں؟۔ہائی کورٹ کے کسی جج تک رسائی نہیں، ایسی باتیں انہیں متنازع بناتی ہیں، آپ اس حوالے سے جواب جمع کرا دیں۔چیئرمین پیمرا کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں؟، انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے ، ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے ، قرآن پڑھا ہے ؟ اس میں حکم ہے سنی سنائی بات آگے نہ پھیلانے دیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاآپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں،چیئر مین پیمرا کہاں ہیں؟ ادارے کے نمائندے نے جواب دیا کہ وہ شہر سے باہر ہیں جس پر فاضل بنچ نے سختی برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے پیمرا نمائندے کو جھاڑ بھی پلا دی اور کہاآپ نے دیکھا رات کے پروگرامز میں کیا تماشا بنا ہوا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا پیمرا نے اب تک کتنے ایکشن لیے ؟، عدالت پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے ، پیمرا کے نمائندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا آپ لوگ کہاں ہیں؟ ساری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا آپ نے ۔چیف جسٹس نے کہا اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے ، آپ بتائیں کیا پیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے ؟۔اس موقع پر سیکرٹری داخلہ اورایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر روسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا سیکرٹری داخلہ درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں؟، آپ لوگوں کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔کیا یہ عدالتی فیصلہ آپ کے سامنے رکھا گیا؟، ساتھ ہی عدالت نے انہیں پریزن رولز پڑھنے کی ہدایت کردی اور کہاطبی بنیادوں پر ضمانت کا کیس عدالت میں آنا ہی نہیں چاہیے ، طبی بنیادوں پر ضمانت کا اختیارحکومت کا ہے ۔عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے کو کہا پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟، آپ نے میڈیکل بورڈ مقرر کیا جس نے کہا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے ، میڈیکل بورڈ نے کہا کہ بیماری جان لیوا ہے ۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کروائیں گے ۔مختصر وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا اگر حکومت درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی تو ہم ضمانت مسترد کردیں گے لیکن اس دوران نواز شریف کو اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہوگی۔ وزرا تمام ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے بیان دے رہے ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام معاملے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا آپ جذباتی نہ ہوں، صرف مخالفت کریں اور ذمہ داری لیں یا مخالفت نہ کریں۔ کیا آپ ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں؟۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا اس وقت ہم کوئی بیان نہیں دے سکتے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تمام ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہ ڈالیں، اگر آپ مطمئن ہیں کہ منگل تک نواز شریف کو کچھ نہیں ہو گا تو پھر ذمہ داری لیں۔سیکرٹری داخلہ نے کہا ہم کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے ، آپ درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کردیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ملک بھر کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ریاست کی ہے ، آپ کہہ رہے ہیں ریاست اور صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا آپ کے کسی آدمی نے حکومتی ترجمان کو عدالتی فیصلے نہیں دیئے کہ وہ اس کو پڑھ کر بیانات دیں، آپ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کیوں نہیں کر رہے ۔قانون پر عملدرآمد خالصتاً پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ایسا کوئی قیدی جس کی جان کو خطرہ ہے ، اس کا کیس صوبائی حکومت خود آگے بڑھا کر مچلکوں پر ضمانت دے سکتی ہے ۔نیب کی سزا تو 14 سال قید تک ہوتی ہے مگر سزائے موت کے قیدیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیادپر ضمانت دی جا سکتی ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر آپ تینوں بیان حلفی نہیں دے رہے تو پھر یقیناً کہیں کچھ غلط ضرور ہے ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہ اہم ابھی ہاں یا نا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں بلکہ ہوسکتا ہے (may be zone) میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاعدالت کوئی ذمہ داری نہیں لے گی، ہم کوئی دلائل نہیں سنیں گے ، پہلے کوئی بندہ ذمہ داری لے ،پنجاب حکومت ذمہ داری نہیں لے رہی،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلی پنجاب سے رابطہ کرنے کی اجازت دی جائے جس پر کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کہا ہم وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس معاملے پر فیصلہ کریں کہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت پرکوئی اعتراض نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا وفاق سے رائے لی ہے ،ہم ذمہ داری لینے کیلئے تیارنہیں،یہ وفاقی نہیں صوبائی حکومت کا معاملہ ہے ،وہ جوچاہے مرضی اپنے اختیارات کا استعمال کرے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم نے پہلے آپ سے کہا عدالت کے ساتھ فئیر رہیں اورکوئی گول مول بات کریں نہ سیاست،جیل کے بیمارقیدیوں سے متعلق کیااقدامات کئے گئے ؟۔سیکرٹری داخلہ پندرہ دن میں رپورٹ جمع کرائیں، رپورٹ میں بتایا جائے کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کرگئے ،جب عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا کہ سیکشن 143 کے تحت انہوں نے کیا اقدامات کئے تو دونوں حکومتیں جواب نہ دے سکیں۔ یہ نواز شریف کا مقدمہ نہیں ہے ، ایسے بھی لوگ ہیں جو درخواست نہیں لکھ سکتے ، پنجاب حکومت نے اب تک کیا کیا۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ دار ہے ۔ ہر بندہ کہہ رہا ہے جو عدالت کہے گی وہ حکومت کرے گی۔ ان لوگوں کا کیا بنے گا جو عدالت نہیں آ سکتے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتا دی ہیں، انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،حکومت نے ضمانت کی مخالفت کی تواسے مسترد کر دیں گے ، عدالتی مچلکوں کے بعد روبکار جاری ہو گی،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس عامر کیانی منگل کو کیس کی دوبارہ سماعت کریں گے ۔ لاہور،اسلام آباد (جنرل رپورٹر،92 نیوزرپورٹ،نیوز ایجنسیاں) سروسز ہسپتال لاہور میں زیر علاج قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی صحت بدستورتشویشناک ہے اور انہیں رات کے وقت دل کا معمولی دورہ پڑا جس کے بعد ہسپتال میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ماہر ڈاکٹر تعینات کردیئے گئے جبکہ کارڈیک مانیٹر اور پلس آکسی میٹر سے مانیٹرنگ شروع کردی گئی۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ کو ایمرجنسی میں بلایا گیا،پروفیسر زبیر اکرم بھی جناح ہسپتال سے پہنچے ۔نواز شریف کو آکسیجن ماسک لگا دیا گیا جبکہ وینٹی لیٹر بھی سٹینڈ بائی کر دیا گیا،نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کی تعدادبڑھ کر45ہزارہوگئی۔ ڈاکٹرز کے مطابق سابق وزیراعظم کو جمعہ کی رات دل کی تکلیف ہوئی جس پر ان کا ڈراپ ٹی ٹیسٹ کیا گیا اور ٹیسٹ کی رپورٹ میں انہیں دل کا دورہ پڑنے کی تصدیق کر دی گئی۔ نواز شریف کی ایکوکارڈیوگرافی اور دو مرتبہ ای سی جی کی رپورٹ نارمل آ گئی، طبی جانچ کے نتیجے میں نواز شریف کے دل میں اینزائمز (پروٹین مالیکیولز) کی تعداد زیادہ پائی گئی۔مائنر دل کے درورے کے بعد خون پتلا کرنے والی ادویات کی فراہمی شروع کر دی گئی۔میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی انجیو گرافی نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ہسپتال ذرائع کے مطابق نوازشریف کی شوگر ہائی اور بلڈ پریشر بھی بڑھا ہوا ہے ۔ خراب صحت کے باعث نواز شریف کو چوبیس گھنٹے میڈکل کور دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔نوازشریف کی والدہ بیگم شمیم سروسز ہسپتال گئیں، مریم نواز اپنے والد کے ساتھ ہی ہسپتال میں موجود ہیں۔ وزیرصحت پنجاب یاسمین راشدنے نواز شریف کو معمولی ہارٹ اٹیک کی تصدیق کرتے ہوئے کہا بروقت ایکوکارڈیوگرافی کی وجہ سے نوازشریف کے ہارٹ میں مزیدکوئی ڈیمیج نہیں ہوا، ان کے پٹھے متاثر نہیں ہوئے ، نواز شریف کی پہلی اوراب کی ای سی جی میں فرق نہیں آیا،ان کے ٹیسٹ کئے گئے ہیں، بیماری کی تشخیص ہوگئی، ان کا علاج جاری ہے ، نوازشریف کابون میرو نظام ٹھیک کام کررہا ہے ، (ن) لیگ والوں کو نواز شریف کی صحت پر سیاست نہیں کرنی چاہئے ،ڈاکٹرثاقب شفیع کی ای سی جی کے مطابق نوازشریف کی حالت میں بہتری آئی ہے ،ان کی تمام ترمیڈیکل رپورٹس ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان سے ڈسکس کی جارہی ہیں، گزشتہ صبح سے نوازشریف کابلڈپریشرکنٹرول میں ہے ،نواز شریف نے ملاقات میں پروفیسرمحمودایاز، ڈاکٹرطاہرشمسی اورڈاکٹرسلیم چیمہ کوطبیعت بہترہونے کی تصدیق کی ،انہیں میڈیکل بورڈ کی تجویزکردہ ادویات سے کافی فائدہ ہورہاہے ، ہم نے طبی طورپرکبھی بھی نوازشریف کی حالت کے بارے میں غلط معلومات فراہم نہیں کیں،وہ بہت عرصہ سے دل کے مریض ہیں، میڈیکل بورڈمیں دوکارڈیالوجسٹ بھی شامل ہیں،نوازشریف کی حالت بارے وزیراعلی پنجابکولمحہ بہ لمحہ آگاہ کیاجارہاہے ، مریم نوازوالدکی صحت کے حوالہ سے پریشان ہیں، مریم نوازکے باقی تمام طبی ٹیسٹس نارمل آئے ہیں۔میڈیکل بورڈکے سربراہ پروفیسرڈاکٹرمحمودایازنے کہانواز شریف کی دل کے حوالے سے حالت تشویشناک نہیں،بورڈنے ا ن کی اکیوٹ آئی ٹی پی بیماری کی ادویات جاری رکھنے کا فیصلہ کیاہے اور اب ان کی حالت بہتر ہے ،نوازشریف کو بلڈ پریشر اور شوگر کی ادویات کے ساتھ انجکشن لگ رہے ہیں، وینٹی لیٹر لگانے کی خبروں کی تردید کرتا ہوں، پلیٹ لیٹس کی کمی اور گردوں کے ٹیسٹ نارمل نہ ہونے سے نواز شریف کی انجیو گرافی نہیں ہوسکتی۔ڈاکٹرطاہرشمسی نے کہانواز شریف کی صحت ٹھیک رہی توپلیٹ لیٹس 7دن تک ڈیڑھ لاکھ تک ہوجائینگے ۔ سروسز ہسپتال انتظامیہ نے نواز شریف سے ملاقاتوں پر پابندی لگادی، اب صرف فیملی ممبران نوازشریف سے ملاقات کرسکیں گے ۔ نواز شریف سے ملاقات کیلئے آنے والے رجسٹر پر اپنے تاثرات درج کریں گے ، لوگوں کے تاثرات سے نواز شریف کو آگاہ رکھا جائے گا۔جے یوآئی کا وفدنوازشریف کی عیادت کیلئے آیا لیکن سروسز ہسپتال کی انتظامیہ نے ملنے نہ دیا،مولانالطف الرحمان نے نواز شریف کی صحت یابی کیلئے دعاکرائی۔ وفد نے شہباز شریف سے نواز شریف کی خیریت دریافت کی اور ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کی قیادت میں بھی وفد نے لیگی رہنمائوں سے ملاقات کر کے نواز شریف کی خیریت دریافت کی۔پریس کانفرنس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا نواز شریف کو منگل تک عارضی ریلیف ملا،سزاختم نہیں ہوئی،عبوری ضمانت کامطلب سزامعطلی نہیں، عدالت نے میڈیکل بورڈکی تجاویزکی بنیادپر نوازشریف کو ضمانت دی، عدالت نے استحقاق استعمال کرتے ہوئے ریلیف دیا،حکومت سے ضمانت مانگی گئی،زندگی اللہ کے اختیارمیں ہے ،حکومت کیسے صحت کی ذمہ داری لے سکتی تھی،حکومت یاوزیراعظم کا اس کیس سے براہ راست کوئی لینادینانہیں تھا،حکومت عدالتی احکامات پرعمل کرنے کی پابندہے ، حتمی فیصلے کے بعدآئندہ کا لائحہ عمل دیں گے ،لاڑکانہ میں شکست کے بعدبلاول بھٹوذہنی دباؤکا شکار ہیں، بلاول کی خواہشات کے مطابق حکومت کوگھرنہیں بھیجاجاسکتا،حکومت کوگھربھیجنے کافیصلہ عوام کریں گے ۔