اسلام آباد(خبرنگار )سپریم کورٹ نے سینٹ انتحابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے رضا ربانی کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے اور آبزرویشن دی کہ سینٹ الیکشن کا طریقہ کار قانون نے دیا ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے ،قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے ،قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں، الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ رہتی ہے ،ہمارااور آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے ،آئرلینڈ میں بھی الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے ،آئرش سپریم کورٹ کا بھی اس معاملہ پر فیصلہ موجود ہے ،اگر متناسب نمائندگی میں سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کا میکانزم شامل ہے تو پھر اکثریتی جماعت کا کیا ہوگا؟ایسے میں تو پھر ایوان بالا میں اکثریت والی جماعت اقلیت میں بدل سکتی ہے ۔معاملہ کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت چیف جسٹس کی آبزرویشنز پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا پی پی میں ایک پی بڑھا کر آج فاروق نائیک آ گئے کل تو پی ایس ایف والے بھی آ جائیں گے ،پچھلے ریفرنس میں بھی کسی وکلا تنظیم کو نہیں سنا گیا اس سیاسی نوعیت کے کیس میں انکا کیا رول ہے ،انکو اگر آنا ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کیلئے درخواست لے کر آئیں، اگر آج تک اس کیس کا فیصلہ نہ ہوا تو یہ علمی مباحثہ بن کر رہ جائے گا۔میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا آرٹیکل 59 میں کہیں نہیں لکھا سینٹ کا الیکشن قانون کے مطابق ہوگا،جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہو گی قانون اپنا راستہ بنائے گا، شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کووووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے ،بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ رولز صدارتی الیکشن کا اختیار دیتے ہیں،الیکشن ایکٹ کے لیے بنے رولز کی حیثیت آئینی نہیں ہے ،تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے ایسا طریقہ بھی بتا دیں ووٹ دیکھا بھی جائے سیکریسی متاثر نہ ہو،اگر معاہدے ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا۔رضا ربانی نے جرمنی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کی سیاسی پارٹیوں اور انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا متناسب نمائندگی میں سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کی گنجائش رکھی گئی ہے ،الیکشن کمیشن ضرور معاملہ دیکھ سکتا ہے لیکن خفیہ ووٹ کا اختیار ختم نہیں کر سکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ اگر ووٹ کی خریدوفروخت کی وڈیو سامنے آئی ہیں تو اس پر کیا ایکشن ہوا ہے ؟ جس پررضا ربانی نے موقف اپنایا کہ آپ جانتے ہیں وہ وڈیو کن کی ہیں میں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں اس پر بات نہیں کرونگا،ووٹنگ کے لیے پیسہ لینا، کوئی معاہدہ کرنا کرپٹ پریکٹس ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ تو پھر ووٹ سے جڑا ہوا ہے ،عدالت کی کوشش ہے کہ جلد اس کیس کو نمٹایا جائے لیکن ہمیں آئین کی تشریح کرنی ہے ۔ عدالت نے فاروق ایچ نائیک کو اپنے تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے معاملہ کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی ۔