اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ ن کے اقتدار کے آخری روز آزادجموں وکشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم کے ذریعے پاکستان کے کردار کو انتہائی محدود کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیدیا ہے ۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی 7رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دیدی ہے ۔ وزیراعظم نے تحقیقاتی کمیٹی کو آزاد جموں وکشمیر عبوری آئین(تیرھویں ترمیم) ایکٹ 2018 ئکے اثرات کے معاملے کی رپورٹ 30روز میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ وفاقی وزیر قانون کے علاوہ کمیٹی میں اٹارنی جنرل آف پاکستان،سیکرٹری کابینہ ڈویژن،سیکرٹری قانون وانصاف،سیکرٹری وزارت امورکشمیر،چیف سیکرٹری آزادکشمیر حکومت، سیکرٹری قانون آزادکشمیر حکومت کو شامل کیا گیا ہے ۔92نیوز کوموصول دستاویز کے مطابق وزارت امورکشمیر وگلگت بلتستان نے اپنی سمری میں آزادکشمیر حکومت کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آزادجموں وکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ئمیں ترمیم کے ذریعے پاکستانی کے انتظامی ومالی امور، دفاع،سکیورٹی،ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار، خالص پن بجلی منافع ورائلٹی میں یکطرفہ اضافہ اور ججوں کی تقرری سمیت اہم امور میں پاکستان کے اختیارات ختم کرنے کے اقدام کو آئین پاکستان کے منافی قراردیا۔ 15رمضان المبارک کو وفاقی کابینہ کے آخری اجلاس میں افطار سے قبل آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کی بیشتر کابینہ ارکان کی مخالفت کے بعدسمری موخر ہوگئی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افطار کے بعد کابینہ سے دوبارہ سمری منظور کروائی۔آزادکشمیر حکومت نے وفاقی کابینہ کے منظورکردہ ترمیمی بل سے تجاوز کرتے ہوئے آزادکشمیر پر پاکستان کے مالی وانتظامی اختیارات کو ختم کردیا۔ آزادکشمیر کے عبوری آئین میں نیشنل سکیورٹی کونسل،وزارت دفاع اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کئے بغیر ترمیم کی گئی۔وفاقی سیکرٹری محمد ایوب شیخ نے وزیراعظم کو ارسال کی گئی سمری میں آزادکشمیر حکومت کے اس اقدام کو آئین پاکستان کے سیکشن 97اور98کی خلاف ورزی قراردیا۔ روزنامہ 92نیوز نے ملکی مفاد کے منافی اس اقدام کی خبر25جون کو شائع کی تھی۔ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین میں قانون ساز اسمبلی اور آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر ترامیم کی گئیں۔آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین 1974 ئکے سیکشن 33 کے مطابق سیکشن 31،سیکشن 33اور سیکشن 56میں حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم کیلئے کونسل یا اسمبلی میں بل بیش کرنا لازم تھا۔ بل پیش کیے جانے کے 14دن کے اندر صدر کو مشترکہ اجلاس بلانا تھا مگر آزادکشمیر حکومت نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یکم جون کو ہی مشترکہ اجلاس بلا کر عبوری آئین میں ایسی ترامیم بھی منظورکروالیں جن کی وفاقی کابینہ نے 31 مئی 2018 کے اجلاس میں منظوری ہی نہیں دی تھی۔سیکشن 51 A میں ایک نئی ذیلی شق (5)متعارف کرائی گئی جس کے تحت کونسل ممبران کی تنخواہیں ،الاؤنسز پینشن اور دیگر مراعات آزاد کشمیر کی حکومت برداشت کریگی۔تنخواہوں ،الاؤنسز اور پینشن کے معاملا ت تیسرے شیڈول کے پارٹ Aسے پارٹ B میں منتقل کئے گئے ۔ آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے کئی ایسی ترامیم کی گئیں جن کی منظوری وفاقی کابینہ نے نہیں دی تھی جیسا کہ آزاد کشمیر کے قانون ایکٹ کو ایک مکمل قانو ن بنانا،قانون ساز اسمبلی کے ممبران کی تعداد کو 49سے 53 کرنا ،ادائیگیوں اور رائلٹی کی مد میں حکومت پاکستان پر بھاری مالی بوجھ ڈالنا،آزادکشمیر پر حملے کی صورت میں صورت میں ایمرجنسی لگانے کیلئے تمام اختیارات پاکستان کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے لئے گئے ۔وفاقی کابینہ نے اپنے فیصلے میں آزاد کشمیر حکومت کو ضمنی ترامیم متعارف کرانے کی ہدایت کی جس کے تحت وزیر اعظم پاکستان کو بطور چیئرمین آزاد کشمیر کونسل سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کی تعیناتی میں مشاورت لازم تھی۔13ویں ترمیم سے قبل وزیراعظم پاکستان کو بطور چیئرمین کونسل یہ اختیارکونسل کے رولز آف بزنس 1983 کے تحت حاصل تھا جسے کونسل کی ایگزیکیٹو اتھارٹی کے خاتمے کے ساتھ ختم کردیا گیا ہے ۔کونسل کے دائرہ کار اور دوسرے امور جیسے دفاع، سکیورٹی ،خارجہ معاملات ،مسئلہ کشمیر اور جوہری انرجی جیسے اہم امور آزادکشمیر حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔