اسلام آباد(خبرنگار )سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سینٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ پیر کو سپریم کورٹ نے چار ایک کی اکثریت سے صدارتی ریفرنس پر رائے دی جس میں کہا گیا ہے کہ ووٹ کی سیکریسی دائمی نہیں۔ سپریم کورٹ نے صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے بھجوائے جا نے والے صدارتی ریفرنس پر اوپن کورٹ میں اپنی را ئے سنا دی جس کے تحت سینٹ کے الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہو تا ہم قرار دیا گیا کہ بیلٹ کی سیکریسی مستقل نہیں۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں سے چار ایک کی اکثریت سے را ئے سنا ئی گئی ،عدالتی را ئے پانچ صفحات پر مشتمل ہے اور ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس را ئے سے اختلاف کیا ہے اور ریفرنس کو صدر کو بغیرجواب دئیے واپس بھجوایا ہے ۔ چیف جسٹس نے را ئے پڑھ کر سنا ئی جس میں کہا گیا کہ عدالت اس بارے میں تفصیلی را ئے بعد میں جا ری کر ے گی تا ہم صدر کے سوالات کا جواب دیا جاتا ہے ۔فا ضل بینچ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل تھا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سینٹ کے الیکشن آئین اور قانون کے مطابق ہو ں ،آئین کے آرٹیکل218(3)کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ فرض ہے کہ دیانتدارانہ، منصفانہ اور شفاف انتخاب کویقینی بنائے اور قانون کے مطابق کرپٹ پریکٹسز سے اس کا تحفظ کرے جس کے با رے میں عدالت پہلے ہی ورکر پارٹی کیس میں تفصیلی فیصلہ سنا چکی ہے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کوآئین کے آرٹیکل 222 کے تحت ذمہ داریو ں کو نبھانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے ۔عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل220کے تحت تمام تر وفا قی اور صوبائی حکام کمشنر یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معا ونت کے پا بند ہیں تا کہ وہ 218(3)کے تحت آئین میں تفویض کی گئی اپنی ذمہ داریو ں کو نبھائیں ۔سپریم کورٹ نے اپنی را ئے میں کہا کہ جہا ں تک ووٹ کے تقدس کا معا ملہ ہے تو اس با رے میں سپریم کورٹ پہلے ہی 1967ئکے نیا ز احمد کیس میں اس سوال کا جواب دے چکی ہے جس میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ بیلٹ کی سیکریسی حتمی(دا ئمی ) نہیں ، ووٹ کے خفیہ ہونے پر آئیڈیل انداز میں کبھی عمل نہیں کیا گیا، خفیہ ووٹنگ کے عمل کو انتخابی ضروریات کے مطابق ٹیمپر کیا جاتا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتا ہے ساتھ ہی کہا کہ الیکشن کمیشن کیلئے ضروری ہے کہ وہ آئینی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سمیت تمام دستیاب اقدامات اٹھائے تاکہ دیانتداری، منصفانہ، شفاف طریقے سے انتخابات یقینی بنایا جائے اور کرپٹ پریکٹسز سے اس کا تحفظ کرے ۔جبکہ فا ضل بینچ کے ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں ایک معا ملے پر را ئے ما نگی گئی وہ ایک قانونی سوال ہے اور نہ ہی یہ معا ملہ آئین کے آرٹیکل186کے تحت آتا ہے اس لیے اس ریفرنس کو ان کی جانب سے بغیر جواب دئیے واپس کیا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ سینیٹ کے الیکشن 3 مارچ کو ہوں گے ۔