اسلام آباد(اظہر جتوئی)وفاقی حکومت کو گندم بحران پر قابو پانے کیلئے 30 روپے فی کلو کے حسا ب سے برآمد کی گئی گندم اب 60 سے 70روپے سے زائد قیمت پر درآمد کرنا پڑے گی جس کی وجہ سے قومی خزانے کو ماہانہ 40 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ حکومت نے گندم بحران سے نمٹنے کیلئے 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس سلسلے میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس آج پیر کو طلب کر لیا۔ذرائع کے مطابق ای سی سی کے اجلاس میں3لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی سمری منظوری کیلئے پیش کئے جانے کاامکان ہے ۔ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ بنولہ پر 5فیصدسیلزٹیکس چھوٹ سے متعلق رپورٹ پیش کرے گی۔اجلاس میں ملک بھر میں جاری میں جاری آٹے کا بحران اور گندم کے ذخائر کے حوالے سے غور ہو گا۔ذرائع وزارت تجارت کے مطابق ڈیرھ ماہ قبل باضابطہ طورپرنوٹیفکیشن ( 1481I) / 2019 )جاری کیاگیا جس کے ذریعے ایکسپورٹ پالیسی آرڈر میں ترامیم کی گئیں۔ ترمیمی نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ فائن آٹا، میدہ ، سوجی اور گندم کی دیگر مصنوعات کی برآمد پر پابندی عائدکردی گئی ۔ذرائع کے مطابق یہ پابندی تاخیر سے لگائی گئی، اسے نومبر سے پہلے لگا دینا چاہیے تھا، حکومت نے ملک میں دستیاب گندم کے ذخیرہ اور طلب کا اندازہ کئے بغیر اس کی برآمد جاری رکھی۔ بحران کی دوسری وجہ گندم اور آٹے کی افغانستان، اورایران کو سمگلنگ میں اضافہ ہے ۔بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ اب پاکستان نے جس قیمت پر گندم برآمد کی اس سے کہیں زیادہ قیمت پر درآمد کرنا پڑ گئی۔اس طرح اگر گندم کی درآمد کی جاتی ہے تو 40 ارب روپے ماہانہ کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جبکہ ابھی گندم کی نئی فصل آنے میں دو ماہ باقی ہیں، اس طرح دوماہ میں 80 ارب روپے کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔