تین کالمی خبر ایک معاصر نے یوں چھاپی کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا۔ نیچے خبر میں 22اشیاء کی فہرست ہے جن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور بلا محابہ ہوا۔ خبر کی سرخی یوں بھی ہو سکتی تھی کہ بجٹ کے بعد سے عوام کو ریلیف کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا لیکن اخبار نے یہ مروت نہیں برتی۔ چنداں فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ بیشتر اخبارات بدستور مروت برت رہے ہیں، یعنی مثبت رپورٹنگ کے تقاضے نبھا رہے ہیں۔ ادھر سرکار کا محکمہ شماریات’’متوازن‘‘ رپورٹ جاری کرتے رہنے کی کوشش میں ہے۔ یعنی یوں کہ اس ہفتے 28اشیاء مہنگی اور گیارہ سستی ہوئیں۔ سستی کی تفصیل جانئے تو مزا آ جائے۔ مثلاً پچھلے ہفتے کوئی شے ایک سو روپے سے بڑھ کر ایک سو تیس کی ہو گئی‘ اس ہفتے وہ ایک سو تیس سے ایک سو اٹھائیس کی ہو گئی تو محکمہ شماریات بتاتا ہے کہ یہ چیز تین روپے سستی ہو گئی۔ یہ نہیں بتاتا کہ پچھلے ہفتے کتنے کی تھی۔ ادھر ایک محب وطن کالم نویس کی تحریر پڑھی۔ حکومت کو داد کے وہ ڈونگرے برسائے کہ ڈونگرے برسانے کا حق ادا کر دیا۔ لکھا کہ ریلیف دوست‘ عوام پرور حکومت نے گاڑیوں کی قیمت میں ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کی کمی کر کے تنخواہ دار طبقے کی مشکل حل کر دی۔اب وہ قسطوں‘ پر گاڑی خرید سکتے ہیں۔ ماشاء اللہ۔ تفصیل اس اجمال کی دو طرح کی ہے۔ نئی قیمت کے حساب سے 40لاکھ کی گاڑی 39لاکھ کی یا چلئے 38لاکھ کی ہو گئی۔ جو آدمی 38لاکھ کی گاڑی قسطوں میں خرید سکتا ہے‘ وہ یہ گاڑی 40لاکھ میں بھی خرید سکتا ہے۔ تو مشکل کہاں سے حل ہوئی‘ تفصیل نمبر دو اس اجمال کی یہ ہے کہ 40لاکھ کی گاڑی 3سال پہلے یعنی چوروں اور ڈاکوئوں کے دور میں کتنی تھی۔؟کسی کی 20لاکھ تو کسی کی پچیس لاکھ۔ تو یوں کیوں نہیں کہتے صاحب کہ حکومت نے 20لاکھ کی گاڑی 38لاکھ کی کر دی؟ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ چالیس لاکھ کی گاڑی 2لاکھ روپے سستی کر دی۔ اس میں تو گاڑی 18لاکھ مہنگی ہوئی ہے۔ ایک بار کسی راہگیر کا واسطہ’’رحم دل اور ریلیف پور راہزن سے پڑ گیا۔ اس نے گن پوائنٹ پر اس کا بٹوہ چھین لیا، جس میں دس ہزار روپے کے بڑے نوٹ اور تین سو کے چھوٹے نوٹ تھے۔ راہزن نے نوٹ گنے اور سو روپے کا ایک نوٹ راہگیر کو واپس کر دیا کہ یہ لو‘ کرائے کے لئے رکھ لو۔ پتہ نہیں‘ بعدازاں راہگیر نے کالم لکھ کر داد کے ڈونگرے برسائے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں مریم نواز کے جلسوں نے سماں باندھ رکھا ہے۔ بہت بڑے‘ پرجوش یعنی مریم نواز کرائوڈ پلر ہی نہیں‘ کرائوڈ چارجر بھی۔پیپلز پارٹی کے جلسے بھی کامیاب ہیں۔ پی ٹی آئی کے جلسے زیادہ کامیاب ہیں۔ حاضری بھی خوب ہوتی ہے یعنی جیسے شادی خانہ آبادی کے بڑے فنکشنوں میں ہوتی ہے۔ بہرحال‘ان بڑے بڑے جلسوں سے مریم نواز کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی جماعت جیتے گی۔ جیتے گا وہی جسے عوام ووٹ دیں گے۔ (کیونکہ عوام ماضی کی کارکردگی بھی جانچتے ہیں ) اورعوام اسی کو چاہیں گے جسے 2018ء میں پاکستان کے قومی انتخابات میں چاہا تھا۔ ایسا طیورکی زبانی سنا ہے‘ ویسے واللہ اعلم۔ رہے بلاول بھٹو تو وہ انتخابی مہم ادھوری چھوڑ کر امریکہ سدھارے‘ انہیں ادھر ادھر سے(یعنی ایک ادھر یہاں والا اور ایک ادھر وہاں والا) پتہ چلا ہے کہ اگلا قرعہ انہی کے نام کا نکلنے والا ہے۔ جب اتنا ’’بڑا‘‘ منصب ملنے والا ہو تو یہ چھوٹا موٹا الیکشن آزاد کشمیر والا کیا معنے رکھتا ہے چنانچہ وہ بامعنے دورے پر روانہ ہو گئے‘ باقی پھر وہی یعنی واللہ اعلم۔ ٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے نائب امیر حافظ ادریس کے جوان اور قابل صاحبزادے ڈاکٹر ہارون ادریس کورونا سے چل بسے۔ دو مہینے وینٹی لیٹر کی آزمائش میں رہے‘ یوں شہادت کی موت پائی۔ ڈاکٹر ہارون ادریس سرگودھا یونیورسٹی میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ تھے اور اپنی علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ نیکی ‘ تقویٰ اور خوش اخلاقی کے لئے معروف تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو بھی ان سے دو منٹ بات کر لیتا‘ گرویدہ ہو جاتا۔ اس جانکاہ صدمے پر حافظ ادریس جس طرح صبر اور راضی برضا کی تصویر بنے رہے‘ وہ کوئی آسان کام نہیں۔ اللہ والوں کی اللہ ہی جانے۔خدا انہیں استقامت پر رکھے اور مرحوم کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ ٭٭٭٭ نواز شریف نے سوات میں کڈنی ہسپتال بنایا،جو کامیابی سے چل رہا تھا۔ اب حکومت نے اس کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید عمران خان کڈنی ہسپتال کا پھر سے افتتاح کرنا چاہتے ہوں۔ چلئے ‘ کوئی بات نہیں ‘ہسپتال چلتا رہے‘ یہی بڑی بات ہو گی۔ پختونخواہ کے دوسرے ہسپتالوں کا سا حال نہ ہو جائے کہ جہاں ڈاکٹر ہے نہ عملہ‘ دوائیں ہیں نہ بستر۔برآمدوں میں وائلڈ لائف گھومتی ہے اور اپنے لئے شیلٹر بنانے پر دعائیں دیا کرتی ہے۔ ٭٭٭٭