اسلام آباد ( سٹاف رپورٹر،آن لائن ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پی بی اے وغیرہ کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022ء کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے کہا پیکا ترمیمی آرڈی نینس کا نفاذ غیر آئینی ہے ، اس لئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔جمعہ کو سماعت کے دوران درخواست گزار رضوان قاضی اپنے وکیل عادل عزیز قاضی کے ہمراہ جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے ،عدالتی احکامات پر ایف آئی اے حکام نے رپورٹ جمع کرائی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ایف آئی اے حکام سے کہا آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور وہ سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں، صرف اس لئے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے ،یہ بتا دیں کیسے اس سب سے بچا جا سکتا ہے ۔ڈائریکٹر ایف آئی اے بابربخت قریشی نے کہا قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے پریشر آتا ہے ،چیف جسٹس نے کہا درخواست اسلام آبادمیں دی جاتی ہے ، مقدمہ لاہور میں درج ہوتاہے اور اسی وقت اسلام آبادمیں چھاپہ بھی ماراجاتاہے ، اس اقدام میں مقامی پولیس بھی قصوروار ہوتی ہے ، یہ بتائیں آپ نے کسی عام آدمی کیلئے بھی ایکشن لیا،اگر کیا ہوتا تو یہ عدالت آپ کو مکمل حمایت کرتی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہاہم توایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں، کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں،آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں ،کسی کا تو احتساب ہونا ہے ، کون ذمہ دار ہے ،شارٹ آڈر کرنا ہے ،جرنلسٹ کی نگرانی کی جارہی ہے ، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا بلال غوری نے وی لاگ کیا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا،کارروائی کیسے بنتی ہے ،ملک میں کتنی دفعہ مارشل لائلگا یہ تاریخ ہے ، لوگ باتیں کریں گے تو کیا سب کے خلاف کارروائی کریں گے ۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیااور بعد ازاں جاری مختصرفیصلہ میں پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواستیں منظور کرلیں اورپیکا ترمیمی آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہتک عزت کو قابل دست اندازی جرم بنانے والی پیکا شق 20 بھی کالعدم قرار دے دی۔ عدالت نے پیکا قانون پر ایف آئی اے کے اختیار سے تجاوز پر انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا سیکرٹری داخلہ ایف آئی اے حکام کے خلاف انکوائری کرکے 30 روز میں رپورٹ دیں۔ عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے پیکا سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات بھی خارج کردیئے ، عدالت نے کہا اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہے ، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے ، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے ،وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے ، توقع ہے وفاقی حکومت ہتک عزت آرڈیننس 2002 کو موثر بنانے کیلئے پارلیمنٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی۔ سیکرٹری داخلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرز عمل کی تحقیقات کریں،اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں،پیکا ترمیمی آرڈی نینس کو آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-A کی خلاف ورزی میں نافذ کیا گیا، عدالت نے مراد سعید کی شکایت پر محسن بیگ کے خلاف درج مقدمہ خارج کرتے ہوئے صحافی بلال غوری اور سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے خلاف بھی مقدمات خارج کردیئے اور کہاپیکا کی سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات درخواست کئے گئے تھے ، شکایت کنندہ ہتک عزت کے دیگر قوانین کے تحت درخواست دائر کر سکتے ہیں۔