اسلام آباد ( سپیشل رپورٹر؍ 92 نیوز رپورٹ؍ مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، عدم اعتماد کی شکل میں باہر سے مداخلت کی گئی،امپورٹڈ حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا، عوام لیکر آئے اور انہی کے ساتھ مجھے آنا ہے ،عوام میں نکلوں گا،سپریم کورٹ کے کون سے فیصلے اچھے اور کون سے ملک کیلئے نقصان دہ ہیں سب جانتے ہیں،اتوار کو عشا کے بعد آپ سب نے نکلنا ہے اور پرامن احتجاج کرنا ہے ، اب این آر او ٹو ہوگا، یہ میچ فکس کرکے عوام میں جائیں گے ، ایک دوسرے کو چور کہنے والوں کی پارلیمنٹ کیا بنے گی،امریکی آفیشل کو پتہ تھا کس نے اچکن سلوا رکھی ہے ، شرم کی بات ہے ارکان اسمبلی سے امریکی حکام ملاقات کرنے لگے ، بھارت خوددار قوم، کسی کی جرات نہیں کہ ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرے ، روس پر پابندیوں کے باوجود تیل لے رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی رات قوم سے اپنے خطاب میں کیا ۔وزیر اعظم نے کہا عدلیہ کی عزت کرتا ہوں، میں چاہتا تھا کہ سپریم کورٹ کم از کم اس مراسلے کو دیکھ تولیتی، سپریم کورٹ دیکھتی کہ کیا ہم سچ بول رہے ہیں کہ نہیں؟ وزیراعظم نے کہا کھلے عام ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے ،عدلیہ سے امید تھی کہ اس معاملے پر سو موٹو ایکشن لے گی۔عمران خان نے کہا قوم سے کہتا ہوں جب آپ باہر سے سازش ہوتی دیکھیں تو اس کے خلاف کھڑے ہوں۔مراسلے کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا یہ جو مراسلہ ہے ، یہ سائفر ہوتا ہے ، یہ میسج ٹاپ سیکرٹ ہوتا ،اس لئے عوام کو نہیں دے سکتا ورنہ دوسرے ملکوں کو کوڈ پتا لگ جائے گا۔انہوں نے کہا عاطف خان اور ہماری پارٹی رکن اسمبلی شاندانہ نے مجھے بتاتا کہ امریکی سفیر نے بلا کر کہا کہ عدم اعتماد آنے والی ہے ، یہ پورا پلان بنا ہوا تھا، فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ ہم غلام یا خود دار بننا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا آرایس ایس کی آئیڈیالوجی کی وجہ سے پاکستان بھارت کے تعلقات خراب ہوئے ، بھارتی ایک خوددارقوم ہے ، کسی سپرپاور کی جرات نہیں کہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کرے ۔وزیراعظم نے کہا نوجوان نسل سے کہتا ہوں میں تو اس امپورٹڈ حکومت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کروں گا، میں تو باہرنکلوں گا، عوام ہی مجھے لے کر آئی اور عوام کے ساتھ ہی میں نے آنا ہے ، جب یہ عدم اعتماد لائے تو میں اپنی اسمبلی کو تحلیل کرکے عوام میں چلا گیا، ہم چاہتے تھے نئے انتخابات کرالیں، جسے عوام مینڈیٹ دے وہ حکومت بنالے ،یہ آتے ہی خود کو این آر او ٹو دے دیں گے ، ای وی ایم ختم کریں گے ،اوورسیزپاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی ختم کریں گے ۔اُنہوں نے کہا یہ تمام عہدوں پر اپنے لوگ لگا کر میچ فکس کرکے الیکشن کرانا چاہتے ہیں، میں اب جدوجہد کے لئے تیار ہوں اور عوام میں نکلوں گا، اتوار کو عشاء کے بعد ساری قوم نے نکلنا ہے اور زندہ قوم کی طرح پُرامن احتجاج کرنا ہے ، کبھی بھی احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور تصادم نہیں کرنا۔ وزیراعظم نے مزید کہا میں قوم کے ساتھ ہوں گا اور بھرپور جدوجہد کروں گا، میں کسی بھی طرح یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ امپورٹڈ حکومت ملک پر مسلط کی جائے ۔قبل ازیں وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کسی صورت حکومت گرانے کی سازش کوکامیاب نہیں ہونے دوں گا،استعفے دینے کامطلب سازش کامیاب بنانے کے مترادف ہوگا۔اجلاس میں پارٹی کے 98 ارکان قومی اسمبلی شریک ہوئے ۔ پی ٹی آئی ارکان نے کہاوزیراعظم صاحب! آپ جو حکم کریں گے ، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم نے کہامیری بات سنیں، شہباز شریف اچکن نہیں پہن سکے گا،ہم کہیں نہیں جارہے ، آپ دیکھتے جائیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آپ لوگ حلقوں میں جائیں، اپنے لوگوں کو اس سازش سے آگاہ کریں،یہ سارے ملکر بھی ہمیں نہیں روک سکتے ، قوم ہمارے ساتھ ہے ۔ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے سخت اپوزیشن کرنے کی تجویزدی گئی۔قبل ازیں وزیراعظم کے زیرصدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔وزیراعظم نے کہا ہم سرخرو ہوئے جبکہ اپوزیشن عوام میں جانے سے گھبرا گئی۔ذرائع کے مطابق شیخ رشید نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی جس پر اتفاق نہ ہو سکا ،بعض وزراء کا موقف تھا پارلیمنٹ میں رہ کر بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے ۔قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ بھی دی۔ دریں اثنا وزیراعظم سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ملاقات کی جس میں موجودہ صورتحال اور اہم سکیورٹی امور پر مشاورت کی گئی۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے ’’جدوجہد مسلسل‘‘ کے عنوان سے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا جب تک پاکستان کے قیام کے مقصد پر واپس نہیں آئیں گے ، ہم ایک قوم نہیں بن سکتے ، خود دار قوم کسی کے آگے نہیں جھکتی۔ انہوں نے کہا مزاحمت سے انسان مضبوط ہوتا ہے ، پاکستان میں ایک دم سے مدینہ کی ریاست نہیں بن سکتی، عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھائی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے کہا یہ جو باہر سے حکومت بدلنے کا فیصلہ ہوا ،قوم نے اگر اپنی آزادی اور خود مختاری پر پہرہ نہ دیا تو پھر باہر سے آ کر کوئی بھی ایسا کر سکے گا۔ اسلام آباد(سپیشل رپورٹر؍ نیوز ایجنسیاں؍ نیٹ نیوز) حکومت نے مبینہ دھمکی آمیز خط کے حوالے سے عالمی سازش کی تحقیقات کیلئے لیفٹیننٹ جنرل(ر) طارق خان کی سربراہی میں کمیشن بنادیا جبکہ طارق خان نے ذاتی وجوہات کی بناء پر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی،کابینہ اجلاس میں سیکرٹری قانون نے سیکریٹ ایکٹ اور دیگر قوانین کی روشنی میں خط ڈی کلاسیفائی نہ کرنے کی رائے دی۔وزیراعظم کو بتایا گیا کہ خط پبلک کرنا سیکرٹ ایکٹ کے خلاف ورزی ہے ، وزیراعظم کو بتایا گیا کہ خط جس شکل میں ہے اس شکل میں پبلک نہیں کیا جاسکتا۔ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خط پارلیمنٹ کے ان کیمرا اجلاس میں دکھانے کی تجویز دی گئی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا سپریم کورٹ نے جس طرح سے حکم جاری کیا، اسمبلی کا اجلاس بھی خود طلب کرلیا، اجلاس کے وقت کا تعین بھی خود کیا، اس سے پارلیمنٹ کی بالادستی خطرے میں پڑھ گئی ۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے پاس سپیکر کی رولنگ کا مواد نہیں تھا تو پھر کیسے عدالت اس پر یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ سپیکر نے اپنا ذہن استعمال کیا ہے یا نہیں۔فواد چودھری نے کہا اگر عدالت رولنگ سے متعلق فیصلہ کرنا چاہتی تھی تو اس کو تمام مواد کو دیکھنا اور اس کا جائزہ لینا چاہئے تھا جو سپیکر کے پاس موجود تھا یا جس کی بنیاد پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے اور اجلاس ملتوی کرنے کے فیصلے تک پہنچے تھے ۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے جو حیرت انگیز فیصلہ کیا ہے ، وہ یہ ہے کہ ہمارے منحرف ارکان ووٹ ڈال سکیں گے جبکہ وہ کیس تو سپریم کورٹ میں سنا ہی نہیں گیا، سپریم کورٹ کے سامنے تو یہ کیس ہی نہیں تھا کہ وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اداروں کا اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کا اصول متاثر ہوا ہے ،حاکمیت اور بالا دستی اب پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ کی جانب منتقل ہوگئی، اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان کے عوام ملک کے حاکم نہیں رہے بلکہ چند ججز اب ملک کے فیصلے کریں گے ۔انہوں نے کہا ان تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور ہم اس پر نظر ثانی کے لئے عدالت سے رجوع کریں گے ۔انہوں نے کہا مراسلے کے معاملے پر غور و خوض کے بعد کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مواد جو اس وقت وفاقی حکومت کے پاس موجود ہے اسکو ’اورجنل سائفر‘ دیئے بغیر تمام ارکان اسمبلی کے سامنے رکھا جائے ، جو اس تحریک عدم اعتماد کی شہادتیں ہیں، وہ ارکان اسمبلی کے سامنے رکھی جائیں اور اس کے بعد بھی کوئی تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینا چاہتا ہے تو پھر پاکستان کے عوام فیصلہ کریں گے کہ کون کس جانب کھڑا ہے ۔انہوں نے کہا عالمی سازش کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے ، کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ تمام معاملے کے پیچھے پوشیدہ کرداروں کو، ان کے معاملات کی تحقیقات کرے اور حقائق قوم کے سامنے لائے ۔انہوں نے کہا کم از کم 8 منحرفین سے براہ راست اور باقی کچھ ارکان سے بالواسطہ ایک سفارتخانے کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے رابطہ کیا گیا، ان کی ملاقاتوں کے ریکارڈز ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔انہوں نے کہا تحقیقاتی کمیشن جائزہ لے کہ ان افراد نے ملاقاتوں کے دوران کیا گفتگو کی، انہوں نے ان ملاقاتوں کے دوران کیا وعدے کئے اور یہ منصوبہ کیسے آگے بڑھا ، یہ وہ تفصیلات ہیں جن کا جائزہ یہ کمیشن لے گا، یہ کمیشن 90 روز میں ان معاملات کی تحقیقات کرے گا، کمیشن کو ماہرین کی معاونت حاصل کرنے کے لئے اپنی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اختیار دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا وفاقی کابینہ نے اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دیئے گئے اس بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں کمیشن نے کہا تھا کہ وہ ملک میں عام انتخابات 7 ماہ سے قبل نہیں کرا سکتا۔ انہوں نے کہا ہمیں فوری طور پر ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی جانب جانا چاہئے جیسا کہ کل چیف جسٹس نے بھی ریمارکس دیئے ۔انہوں نے کہا الیکشن کمیشن اپنے بیان پر نظر ثانی کرے اور ہر حال میں 90 روز میں انتخابات ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا عالمی سازش کے تحت اس شخص کو ملک پر مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس کی سوچ ہی غلامی کی ہے ، وہ کہتا ہے کہ ہم بھکاری ہیں، ایسے شخص کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو کیا عمران خان خاموش بیٹھیں گے ، ہر گز نہیں، ہم اس کے خلاف مزاحمت کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے اپوزیشن اور ہم اکٹھے ہی استعفے دینگے ۔