اسلام آباد(غلام نبی یوسف زئی)سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات میں استغاثہ کے وکلا اور تفتیشی افسران کے طرز عمل پر سوالات اٹھاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ استغاثہ کے وکلا اور تفتیشی افسران کا طرز عمل مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتا ہے ۔عدالت نے قتل کے ملزم کی ضمانت کے مقدمے کے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ فوجداری کے اکثریتی مقدمات میں سرکاری وکیل کیس پڑھ کر نہیں آتے اور عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب کے لیے تفتیشی کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ تفتیشی بغل میں پکڑے فائل کو دیکھنے لگ جاتے ہیں لیکن عدالت کے سوالات کے جواب نہیں ملتے ۔عدالت نے اس طرز عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی مقدمے میں استغاثہ کو نوٹس جاری ہوجائے تو متعلقہ سرکاری وکیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیاری کے ساتھ پیش ہو اور کیس کے متعلق تمام معلومات سے آگاہ ہو۔استغاثہ کے وکیل عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے لیے تفتیشی کی طرف نہ دیکھے اور نہ پراسکیوٹر کو عدالت کے اندر تفتیشی سے پوچھنا چاہیے ۔عدالت نے تجویز دی ہے کہ اکیسویں صدی کے اس ڈیجیٹل دور میں فائلیں لانے کی ضرورت نہیں،ہر شخص کے پاس موبائل فون موجود ہے اس لیے تفتیشی افسران ،میڈیکل رپورٹس،فرانزک رپورٹس،چالان اور کیس سے متعلق دیگر دستاویزات الیکٹرانکلی منتقل کرکے عدالت میں پیش کرنے کے لیے کہی سے پرنٹ نکال سکتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس یحٰیی آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ آبزرویشن سرگودھا میں قتل کے ملزم محمد نعیم کی ضمانت کے مقدمے میں دی۔فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے وکیل نے بتایا کہ کیس کا چالان ٹرائل کورٹ میں پیش ہوچکا ہے جس پر عدالت نے چالان پڑھنے کا کہا لیکن استغاثہ کے وکیل نے بتایا کہ تفتیشی چالان ساتھ نہیں لے کر آیا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ تفتیشی افسر سرکاری خرچ پر سرگودھا سے مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت آئے لیکن اپنے ساتھ کیس کا متعلقہ ریکارڈ نہیں لے کر آئے ،یہی طرز عمل ہے جس سے کیس تاخیر کے شکار ہوجاتے ہیں۔عدالت نے استغاثہ کے متعلقہ وکیل اور تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کا معاملہ ادارے پر چھوڑدیا ہے لیکن ہدایت کی ہے کہ کیس کے فیصلے کی نقل پراسکیوٹر جنرل پنجاب اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر سرگودھاکو ارسال کی جائے ۔ عدالت نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔