اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو کو قواعد بنانے کی ہدایت جبکہ سیکرٹری قانون کو احتساب کی نئی عدالتوں کے قیام کے لئے کابینہ سے منظوری لینے کا حکم دیا ہے ۔3رکنی سپیشل بینچ نے احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک ماہ میں ججز تعیناتی کا عمل شروع کرنے کا حکم دیا ۔دوران سماعت عدالت کے استفسار پر پراسیکوٹر جنرل نیب نے انکشاف کیا نیب کے معاملات ایس او پیز کے تحت چلائے جاتے ہیں اورابھی تک ادارے کے رولز نہیں بنے ۔اس انکشاف پر عدالت نے حیرانگی کا اظہار کیا اور آبزرویشن دی کہ ایس او پیز رولز کے متبادل نہیں ہوسکتے ۔عدالت نے نیب کے طریقہ کار اور ملزمان کی گرفتاریوں کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے اور آبزرویشن دی کہ 21 سال سے نیب کے رولز ہی نہیں بنے ۔عدالت نے نیب کو ایک ماہ میں نیب آرڈیننس کی سیکشن 34 کے تحت رولز بنانے کی ہدایت کرکے سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کردی ۔پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے عدالت کو بتایا چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیاں مل رہی ہیں، راولپنڈی میں ایک پراسیکیوٹر پر فائرنگ بھی کی گئی ، فنڈز ملیں تو اچھے پراسیکیوٹرز بھرتی کرینگے جس سے کارکردگی میں نمایاں بہتری آجائے گی ۔جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا فنڈز کی فراہمی انتظامی معاملہ ہے اس ضمن میں عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا نیب والے کچے پکے کیس بنا کر عدالتوں کو بھیج دیتے ہیں،نئی عدالتوں کے قیام میں 2.86 ارب کا مسئلہ چوزے کی خوراک کے برابر ہے ،نیب مقدمات جیتے تو ہزار ارب سے زائد کی ریکوری ہو سکتی ہے ، دو ارب تو نیب کے ایک کیس سے ہی نکل آئیں گے ،حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں،بیس بیس سال سے مقدمات احتساب عدالتوں میں پڑے ہیں۔ قبل ازیں حکومت نے ملک بھر میں اضافی احتساب عدالتیں قائم کرنے کے حوالے سے پیشرفت رپورٹ جمع کراتے ہوئے اس ضمن میں حائل دشواریوں سے عدالت کو آگاہ کردیا ۔وزارت قانون نے رپورٹ میں کہا 120نئی عدالتیں قائم کرنے میں حکومت کو مالی اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے ،سالانہ 2ارب 86کروڑ کی ضرورت ہوگی تاہم احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لئے مشاورت شروع کردی گئی اور فنڈز کا انتظام کیا جارہا ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا اس وقت ملک بھر کی 24احتساب عدالتوں میں 975 مقدمات زیر التوا اورتمام عدالتیں فعال ہیں۔ سپریم کورٹ میں لاکھڑا پاور پلانٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب کو قرار دیدیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ نیب کے تفتیشی افسران میں اہلیت اور صلاحیت نہیں، تفتیش کا معیار جانچنے کیلئے کوئی نظام ہی نہیں،غلطیوں سے بھرپور ریفرنس پر عدالتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اس لئے کرپشن کے مقدمات کے فیصلے تاخیر کے شکار ہوجاتے ہیں، افسران کی نالائقی کی وجہ سے تفتیش سالوں چلتی رہتی ہے ،30 دن میں فیصلے کی بجائے لوگ تیس سال تک پڑے رہتے ہیں۔پراسیکیوٹر جنرل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا آپ نے تمام الزام عدالتوں پر لگا دیا جس کے جواب میں پراسیکیوٹر جنرل نے کہا نہیں ایسا نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ایسا ہی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا ہمیں نیب سے کوئی معاونت نہیں ملتی،حقائق اور لیگل پہلوئوں کا معلوم نہیں ہوتا۔ مزید سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی گئی۔