Common frontend top

ڈاکٹر حسین پراچہ


پاکستان: ناپسندیدہ پاسپورٹوں میں تیسرا نمبر


گردش دہر ہی کیا کم تھی جلانے کو‘ اوپر سے ایک اور تیر ہمارے سینے میں آ لگا ہے۔ دنیا کے ناپسندیدہ ترین پاسپورٹوں میں ہمارا نمبر تیسرا ہے۔ یہ اعزاز حکمرانوں اور سیاستدانوں کو زیادہ مبارک ہو‘ جو جہاں جاتے ہیں خود ’’منہ زبانی‘‘ اپنے ملک کا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر صدا لگاتے ہیں ؎ دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ بوٹا لائے گا ہینلے پاسپورٹ انڈکس کی رینکنگ کے مطابق اس وقت پسندیدہ ترین پاسپورٹوں میں جاپان پہلے نمبر پر ہے۔ گویا کوئی جاپانی تقریباً دنیا کے کسی ملک میں
جمعرات 10 جنوری 2019ء مزید پڑھیے

خود بدلتے نہیں آئین کو بدل دیتے ہیں

منگل 08 جنوری 2019ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
ہمارا معاملہ ماروں گھٹناپھوٹے آنکھ والا ہے۔ ہمارا مسئلہ آئین سازی نہیں آئین شکنی ہے۔ مسائل و مصائب کے ہجوم سے نبرد آزما ہونے کے لئے کسی بقراط نے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑا ہے اور اٹھارویں دستوری ترمیم کو نشانہ تنقید بنایا ہے۔ ہماری تاریخ کوئی اتنی پرانی نہیں کہ اسے سمجھنا دشوار ہو۔ ہم اپنی کوہ ہمالیہ جیسی غلطیوں کو بار بار دہرانے پر کیوں مصر رہتے ہیں؟شاعر نے کہا تھا کہ: کروں میں پھر سے کہانی کی ابتدا کہ نہیں جناب ایئر مارشل اصغر خان نے بڑی درد مندی سے ایک کتاب لکھی تھی کہ ’’ہم تاریخ سے سبق
مزید پڑھیے


سید مودودی کا تذکرہ

هفته 05 جنوری 2019ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
مجھ سے اکثر نوجوان پوچھتے ہیں کہ آپ زندگی میں کتنے بڑے لوگوں سے ملے ہیں۔ ایسے مواقع پر میں اپنی محرومی اور خوش قسمتی دونوں کا ذکر کرتا ہوں۔ محرومی تو یہ کہ میں نے علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کا زمانہ نہیں پایا اور خوش قسمتی یہ کہ مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی نہ صرف زیارت بلکہ ان سے بات چیت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ گزشتہ روز مجھے مدتوں کے بعد ایک خالصتاً علمی محفل میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ تقریب دی پنجاب اسکول سسٹم کے مدارالمہام سید احسان اللہ وقاص نے اپنے
مزید پڑھیے


مقبوضہ کشمیر: ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

جمعرات 03 جنوری 2019ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
ہم اپنی بچگانہ لڑائیوں میں مگن ہیں۔ اردگرد کیا ہو رہا ہے اس سے بے خبر ہیں‘ غافل ہیں بلکہ بے پروا ہیں۔اگر ہمارے حکمران اور سیاست دان سنجیدگی اور درد مندی کی نعمت سے محروم نہ ہوتے تو وہ ساری دنیا کے کونے کونے میں آباد کشمیریوں اور پاکستانیوں کو متحرک کر کے نام نہاد عالمی کمیونٹی اور امریکہ جیسے انسانی حقوق اور امن و سلامتی کے ٹھیکیداروں کو جھنجھوڑتے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے سوال کرتے کہ تم نے بھارتی درندوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی آزادی کیوں دے رکھی ہے۔ اگر امریکہ کے کسی
مزید پڑھیے


یہ سال بھی کٹ گیا ہے!

منگل 01 جنوری 2019ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
31دسمبر کو حسب روایت میں نے اپنے آپ کو ’’اپنی‘‘عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا تو مجھے ڈاکٹر خورشید رضوی کی نظم’’محاسبہ‘‘ یاد آ گئی۔ احتساب ذات پر کیا کمال کی نظم ہے۔ ہوا کہیں نام کو نہیں تھی اذان مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا طویل قامت حزیں کھجوریں کٹی ہوئی ساعتوںکے ماتم میں بال کھولے ہوئے کھڑی تھیں ادھر مرا دل دھڑک دھڑک کر عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا
مزید پڑھیے



آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں

هفته 29 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
اگرچہ آج خبریں بڑی گرما گرم ہیں اور ان پر تبصرہ کرنے کو دل مچل رہا ہے مگر آج پاسبان عقل کا کہنا ہے کہ سیاست سے ذرا ہٹ کے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سان فرانسسکو میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ وہ کسی برانڈ کے نہیں عام سے کپڑے پہنتا ہے۔ اس کے چہرے پر جو عینک لگی ہے وہ پرانی اور معمولی سی ہے۔ وہ سستی سی ایک دو گھڑیاں استعمال کرتا ہے۔ اسکے پاس کوئی کار نہیں وہ پبلک بس سے سفر کرتا ہے۔ وہ دفتر جاتے ہوئے جو ہینڈ بیگ لیکر جاتا ہے وہ
مزید پڑھیے


شریف اور بھٹو خاندان کا سیاسی مستقبل

جمعرات 27 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
کچھ مدت پہلے مجھے اپنے زمانے کے بابائے صحافت اور شہنشاہِ خطابت آغا شورش کاشمیری کے ایک صاحبزادے نے اپنے والد کا ایک تاریخی قول سنایا اور اس کا بیک گرائونڈ بھی بتایا۔ یہ 1974ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ بھٹو صاحب 1973ء کے متفقہ آئین کا سہرا اپنے سر باندھنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو فکس اپ کرنے میں مشغول تھے۔ انہی دنوں لاہور کی تاریخی جلسہ گاہ موچی گیٹ میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی زیر صدارت جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوںکو وہ
مزید پڑھیے


قائداعظم اور آج کا پاکستان

منگل 25 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
میں سوچتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کارنامہ کیا تھا؟ میرا جواب یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی شخصیت تھی۔ بیسویں صدی میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ عالمی سطح پر وہ ایک منفرد و ممتاز لیڈر تھے۔ اس وقت کے سیاسی افق پر جتنی چاہیں نظر دوڑائیں آپ کو قائداعظم کے پائے کا کوئی سیاست دان یا مدبر کہیں دکھائی نہ دے گا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں مسلمانان ہند میں بعض بہت ممتاز شخصیات تھیں۔ علمی فضیلت میں مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز تھے اور مولانا عطاء
مزید پڑھیے


تعلیم گاہیں یا قتل گاہیں

هفته 22 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
ایک ٹیچر ہونے کے ناتے میں ہمیشہ نوجوانوں کا بہت بڑا وکیل رہا ہوں۔ مجھے یہ دعویٰ تو نہیں کہ میں نوجوانوں کے دلوں میں اٹھنے والے مدوجزر اور ان کے اذہان و قلوب میں برپا ہونے والی لہروں کی شدت اور حدت سے پوری طرح آگاہ ہوں مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، کیا محسوس کرتے ہیں اور شعوری سطح پر ان کی کیا ترجیحات ہیں، ان کا قدرے رازداں ضرور ہوں۔ اسی لیے گاہے گاہے میں غم کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ ’’رازوں‘‘ سے پردہ اٹھا دیتا ہوں۔ دو روز پہلے وزیر مملکت برائے داخلہ
مزید پڑھیے


واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا

جمعرات 20 دسمبر 2018ء
ڈاکٹر حسین پراچہ
یہ غالباً آٹھویں صدی کا قصہ ہو گا کہ جب نہ ریل تھی نہ ٹرین تھی نہ شاہراہیں تھیں اور نہ ہی کوئی باقاعدہ گزرگاہیں۔ اس زمانے میں بغداد اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ وہاں ایک روز دربار میں خلیفہ ابو جعفر منصور باذوق درباریوں سے ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران کہنے لگا کہ آلو بخارا کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ تب بغداد اور اس کے گردونواح میں آلو بخارے کا موسم نہ تھا۔ مگر اہل دربار میں سے کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ کہے کہ حضور! پھل تو موسم کا ہوتا ہے اور آج کل آلو
مزید پڑھیے








اہم خبریں