اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے جعلی لائسنسوں سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی اور کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ضرورری ادویات اور ساز وسامان کی خریداری سے متعلق این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم،جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو غیر محفوظ قرار دیدیا جبکہ ادارے میں خرابیوں اورجعلی لائسنس جاری کرنے والوں اور پائلٹس کیخلاف کارروائی کرنے اورفوجداری مقدمات درج کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے کورونا سے نمٹنے کیلئے ادویات اور ساز وسامان کی خریداری میں عدم شفافیت پر برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ الحفیظ کمپنی کس کی ہے ابھی تک پتہ نہیں چلا،این ڈی ایم اے کسی کو تحفظ فراہم کررہا ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہم چیئر مین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیں اور وزیراعظم کو کہیں کہ این ڈی ایم اے کو بند کر دیں۔چیف جسٹس این ڈی ایم اے اور سول ایو ی ایشن اتھارٹی پر بر ہم ہوئے اور ریما رکس دیئے کہ 3 مرتبہ حکم دینے کے باجود این ڈی ایم معلومات فراہم نہیں کر رہا،لگتاہے ہمارے ساتھ کوئی بہت ہوشیاری اور چالاکی کر رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا شاید کورونامیں بہت کچھ غلط ہوا جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،کسی کو ایک روپے کا فائدے بھی نہیں پہنچنے دینگے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ این ڈی ایم اے اربوں روپے کیسے خرچ کررہا ہے ،لگتا ہے این ڈی ایم اے کو ہی ختم کرنا پڑ یگا۔عدالت نے جعلی ادویات کی خرید وفروخت پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا جعلی ادویات بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو پھانسی ہونی چاہئے ۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے نے ابھی تک اہم دستاویز جمع نہیں کرائیں، الحفیظ کمپنی کی مشینری کو امپورٹ کی اجازت دینے کی دستاویز کہاں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاجہاز چارٹرڈ کرنے اور اس کی ادائیگیوں کی تفصیلات کہاں ہیں۔ ڈائریکٹر این ڈی ایم اے نے عدالت میں موقف اپنایا کہ الحفیظ کمپنی کی مشینری این ڈی ایم اے نے امپورٹ نہیں کی، کمپنی نے براہ راست امپورٹ کی ہے ، این ڈی ایم نے صرف سہولت کاری کی تاکہ مشینری امپورٹ ہو سکے جس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی تک الحفیظ کمپنی کا مالک سامنے نہیں آسکا، اصل مسئلہ کسٹم اور دیگر قوانین پر عمل نہ ہونا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا جہاز چارٹر کیاگیا جس کے لئے ایک کروڑ 7 لاکھ سے زائد نقد رقم ادا کی گئی،چارٹر معاہدے کے مطابق نقد ادائیگی کیسے کر سکتے ہیں؟۔چیف جسٹس نے کہا چیئرمین این ڈی ایم اے وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں، کیوں نہ چیئرمین این ڈی ایم اے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہااین ڈی ایم اے کو فری ہینڈ اور بھاری فنڈز دیئے گئے تا کہ کورونا سے لڑا جا سکے ، اب این ڈی ایم اے عدالت اور عوام کو جوابدہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہااین ڈی ایم اے ٹڈی دل کیلئے جہاز اور مشینری منگوا رہا ہے ،صرف زبانی نہیں دستاویز سے شفافیت دکھانی پڑے گی۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے این ڈی ایم اے کے جمع شدہ جواب واپس لینے کی استدعا کردی اور موقف اپنا یا کہ دستاویز سمیت جامع جواب جمع کرائینگے ۔جس پر عدالت نے اپنے حکم میں ایس ای سی پی سے الحفیظ کمپنی کی تمام تفصیلات طلب کرتے ہوئے این ڈی ایم کا جواب ممبر ایڈمن کو واپس دے دیا اور تمام تفصیلات پر مبنی جامع جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے چیئرمین ڈریپ سے استفسار کیا کہ ڈریپ نے نان رجسٹرڈ ادویات کی در آمد کی اجازت کیسے دی؟ جن ادویات کی اجازت ہی نہیں انکو لانے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں جس پر چیئرمین ڈریپ نے کہا قوانین کے مطابق ایمر جنسی میں ادویات اور مشینری در آمد کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بھارت سے آنے والی ادویات غیر قانونی تھیں، اس کی حیثیت کیا تھی؟ جس پر اٹا رنی جنرل نے کہاکابینہ نے چند ادویات کی اجازت دی لیکن امپورٹ بہت زیادہ ہوئیں،شہزاد اکبر نے رپورٹ جمع کرائی کہ اجازت کا غلط استعمال کیا گیا۔ عدالت نے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی اور ڈریپ سے امپورٹ کی گئی ادویات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکرٹری صحت کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت کتنی لگژری گاڑیاں خرید رہی ہے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتا یا کہ حکومت کوئی گاڑیاں امپورٹ نہیں کر رہی جبکہ گزشتہ سال کی معلومات ابھی موجود نہیں۔ عدالت نے صوبائی حکومت اور سرکاری کمپنیوں کے پاس موجود گاڑیوں کی تفصیلات سمیت ڈونر ایجنسیوں کی جانب سے دی گئی رقم سے خریدی گئی گاڑیوں کی تفصیلات طلب کرلیں اوربجٹ میں گاڑیوں کیلئے مختص فنڈ استعمال کرنے سے روک دیا۔ کیس کی سماعت کے دوران سندھ اور بلوچستان حکومت کو تفصیل جمع کرانے کیلئے دو ہفتوں کا وقت دے دیا۔دوران سماعت عدالت نے جعلی لائسنسوں کے بارے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس نے کہا ڈی جی سول ایو ی ایشن اس عہدے کے اہل نہیں، سی اے اے کے تمام افسران کو ان کا حصہ پہنچ رہا ہوتا ہے ، جعلی لائسنس پر دستخط کرنے والے جیل جائینگے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ بدنامی میں پاکستان زمین کی تہہ تک پہنچ چکا ہے ۔ ڈی جی نے کہا حکومت کی منظوری سے جعلی لائنس اجرا کا معاملہ ایف آئی اے کو بھجوائیں گے ۔ دوران سماعت ایم ڈی پی آئی اے ارشد محمود ملک بھی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ جعلی ڈگری والے 750 ملازمین اور بھرتیوں میں ملوث افراد کو بھی نکالا گیا ہے ۔ ارشد ملک نے کہا جعلی ڈگری والے 15 پائلٹس کو برطرف کیا گیا،پائلٹس کو صرف معطل کر سکتا ہوں برطرف سول ایوی ایشن کرتا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاروزویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کا کوئی اثاثہ عدالت کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا1947ئسے کے آج تک جاری تمام لائسنس چیک کریں۔ عدالت نے حکم میں قرار دیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس کیخلاف کارروائی فوری مکمل کرے اور ملوث افسران کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرا ئے جبکہ دو ہفتے میں کارروائی پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے ۔