اسلام آباد(خبر نگار،92نیوز رپورٹ)سپریم کورٹ نے خواجہ برادران کی ضمانت سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے نیب کے طرز عمل اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے گزشتہ سال 17اکتوبر کو خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی درخواست ضمانت منظور کرنے سے متعلق 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی میں قرار دیا کہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ آئینی عدالتوں کی آئینی ذمہ داری ہے ،کسی شخص کو غیر قانونی طور پر ان کی جان،مال اورعزت و آبرو سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بنے 72سال ہو چکے ، آج بھی عوام حقوق سے محروم، جمہوری اقدار، شفافیت کے اصولوں کامذاق اڑایا جاتا۔فیصلے میں پاکستان بننے کے بعد احتساب کے نام پر بنے قوانین کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے نیب نے اپنے طرز عمل سے بھی عوام میں اپنے اعتبار اور غیر جانبداری کو متزلزل اور اپنی ساکھ کو متاثر کیا۔نیب کا تذبذب اس کی جانبداری کو عیاں کرتا ہے ،نیب مالی سکینڈلوں کے باوجود سیاسی تقسیم کے ایک طرف کے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا جبکہ دوسری طرف کے لوگوں کو گرفتارکرکے سالہا سال زیر حراست رکھا جاتا ہے ۔ نیب تمام تر کوششوں کے باوجود خواجہ برادران کا پیراگون کے ساتھ تعلق جوڑنے میں ناکام رہا۔ قیصر امین بٹ کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا مطلب ہے کہ نیب کے پاس خواجہ برادران کے خلاف ثبوت نہ تھے ۔جسٹس مقبول باقر نے فیصلے میں حبیب جالب کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔فیصلے میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ معاملہ نیب آرڈننس کی سیکشن نو میں آتا ہے ۔عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ اس فیصلے میں دی گئی ابزرویشنز ریفرنس پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔