Common frontend top

عمر قاضی


کیا خواب دیکھنے کے لیے رات کافی نہیں؟


ذوالفقار علی بھٹو دانائی اور دیوانگی کا عجیب سنگم تھے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ جیل میں تھے؛ تب انہوں نے ایک بار بیگم نصرت بھٹو کے سامنے جذباتی تقریر کرتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ ’’میری پارٹی کے کارکنوں سے کہو کہ وہ عوام سے مل کر پورے ملک کا سسٹم روک دیں۔ جنرل ضیاء کا مارشل لا عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرسکتا۔ جب عوام سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر نکلیں گے تب کوئی قوت انہیں روک نہیں پائی گی۔۔۔۔!!‘‘ ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخصوص انداز میں بولتے گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ چپ
جمعه 13 جولائی 2018ء مزید پڑھیے

تاریخ کے کٹہرے میں!!

پیر 09 جولائی 2018ء
عمر قاضی
سوشل میڈیا پر یہ الفاظ پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ ’’جتنے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ میں شریک تھے اتنے لوگ تو میاں نواز شریف کے لیے بھی احتجاج کرتے نظر آئے‘‘ تاریخ تلخ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ تاریخ بڑی سے بڑی بات بھی اپنے سینے میں سماسکتی ہے۔ تاریخ کی برداشت بہت بڑی قوت ہوتی ہے۔ مگر تاریخ ایک غلط بات کو برداشت نہیں کرسکتی اور یہ بات غلط ہے کہ نواز شریف کو ملنے والی سزا پر نظرنہ آنے والے ردعمل کا موازنہ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ سے کیا جائے۔ اس قسم کی
مزید پڑھیے


سازش کی تیلی اور سیاست کاسوکھا جنگل

جمعه 06 جولائی 2018ء
عمر قاضی
لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کے جلوس پر جو پتھرپھینکے گئے ان پتھروں نے پیپلز پارٹی کے سارے امیدواروں کو جذباتی طور پر زخمی کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو سو فیصد یقین تھا کہ سندھ پر دس برس بری حکومت کرنے کے باوجود جب وہ بلاول بھٹو کو میدان میں اتارے گی تو اس نوجوان کے فریم میں بینظیر بھٹو کی تصویر دیکھ کر عام طور پر پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں وہی سیاسی دیوانگی کے مناظر دکھائی دینگے۔ جس طرح اقتدار میں آنے سے پہلے
مزید پڑھیے


سندھ کا انتخابی منظرنامہ

هفته 30 جون 2018ء
عمر قاضی
وہ ایک کامیاب وکیل تھے اور عمر میںہم سے بڑے تھے مگرہم سے بے تکلفی سے ملا کرتے تھے۔ ہمیشہ ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔ پرانے لطیفے نئے انداز میں سنانے کے آرٹسٹ تھے۔ انہیں دیکھ کر ہمیشہ یہ خیال آتا کہ اگر یہ ہمارے نوجوان بزرگ اپنی وکالت کی عزت اور دولت انتخابی معرکوں میں اس طرح بیدردی سے نہ لٹاتے تو معتبر شخصیت کے مالک بن جاتے۔ مگر موصوف پورے پانچ برس محنت سے وکالت کرتے اور جب بھی انتخاب کا موسم آتا تو وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوتے اور برسوں کی کمائی ہفتوں میں اڑا
مزید پڑھیے


بھٹو کے شہر میں شرم کی تلاش

منگل 26 جون 2018ء
عمر قاضی
لاڑکانہ کے لوگوں کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی حالت زار دیکھنے اور ان کے دکھ سننے کوئی نہیں آئے گا۔ لاڑکانہ کے لوگوں سے تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی نہیں ملا۔ جب بھٹو زندہ تھے تب وہ نہ صرف ہر ماہ لاڑکانہ میں آتے تھے بلکہ وہاں رہتے بھی تھے اور اہلیان شہر سے ملتے بھی تھے۔ بھٹو سے ملنے والوں میں صرف لاڑکانہ کے وڈیرے نہیں ہوتے تھے۔ وہ لاڑکانہ کے غریبوںسے بھی ملتے تھے۔ وہ لاڑکانہ کے نوجوان سیاسی کارکنوں سے بھی ملاقات کرتے تھے۔ ان کے دروازے لاڑکانہ کے اس
مزید پڑھیے



پیپلز پارٹی کے اڑتے پرزے

جمعرات 21 جون 2018ء
عمر قاضی
پیپلز پارٹی کی قیادت کو پتہ تھا کہ اس کی جڑ پنجاب کی دھرتی سے اکھڑ چکی ہے مگر پیپلز پارٹی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اسے سندھ میں سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس وقت سندھ میں ٹکٹوں پر پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث پیپلز پارٹی اس طرح ٹوٹ رہی ہے جس طرح تیز بارش میں کچے مکانوں کی کمزور دیواریں ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف گھوٹکی کے علی گوہر مہر پیپلز پارٹی کو الوداع کرنے کے بعد جی ڈی اے میں شامل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف خیرپور ناتھن شاہ کے طلعت
مزید پڑھیے


انقلابی ناول کا کردار

بدھ 13 جون 2018ء
عمر قاضی
ہم ان سے اس طرح مخاطب نہیں ہوسکتے جس طرح آرمینیا کے شاعر تومانین نے آسمان میں بھٹکتے ہوئے ایک پرندے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا۔ ’’الوداع! اے پیارے پرندے تم جہاں جاؤ گے بہار کی ہواؤں کے ساتھ آخر لوٹ آؤ گے‘‘ ہم جانتے ہیں کہ وہ جہاں گیا ہے؛ وہاں سے کبھی بھی واپس لوٹ کو نہیں آئے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس آسمان کے نیچے اور اس دھرتی کے اوپر ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ مگر وہ اس عام فرق سے زیادہ مختلف اور بہت خاص تھا۔اس جیسے سیاستدان کے لیے سندھ کو بہت انتظار کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیے


سندھ کی سیاست: آنسو اور آدرش

پیر 04 جون 2018ء
عمر قاضی
وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ زندگی انٹرنیٹ کے ساتھ اڑتی جا رہی ہے۔ سرحدوں کے فاصلے بے معنی بنتے جا رہے ہیں۔ مگر سندھ کا اکثریتی عوام ابھی تک میروں؛ پیروں؛ مخدوموں اور سیدوں کی سیاست کا قیدی ہے۔ جب بھی ملک کی اقتداری کروٹ لیتی ہے تب سندھ کے بڑے پیر مختلف پارٹیوں میں ہونے کے باوجود آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس بار بھی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سندھ اور پنجاب کے مخدوم پیر پگاڑا کے پاس پہنچ گئے۔مخدوم جمیل الزماں کی پیرپگاڑا سے ملاقات آصف زرداری کے لیے پریشانی کا باعث بنی۔
مزید پڑھیے


کیا قوم پرست اس بار بھی ہار جائینگے؟

جمعه 01 جون 2018ء
عمر قاضی
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ’’یوم نجات‘‘ کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اس وقت سندھ کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال ابھرا ہوا ہے کہ ’’اب پیپلز پارٹی کس منہ سے ووٹ مانگنے جائے گی؟‘‘مگر یہ سوال اٹھانے والے یہ بات بھول رہے ہیں کہ سیاست کی ناک فولادی ہوتی ہے۔ وہ اس بات کو بھی فراموش کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کا تعلق مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔ جب کہ ووٹ کی طاقت اس طبقے کے پاس ہے جن کی اکثریت کو اب تک معلوم نہیں
مزید پڑھیے


رنگ پیراہن کا‘ خوشبو زلف بکھرانے کا نام

پیر 28 مئی 2018ء
عمر قاضی
لیڈی ڈیانا کے بیٹے پرنس ہیری کی شادی کا جشن تو اب اختتام کو پہنچا ہے مگر سوشل میڈیا میں اب تک اس کی سانولی دلہن میگھن مارکل کے حوالے سے یہ بحث جاری ہے کہ ’’کیا عورت کی خوبصورتی گورے رنگ کی محتاج ہے؟‘‘ پاکستان کی مشہور بینڈ وائٹل سائنز نے ایک گیت گایا تھا جو اب تک بڑی چاہ کے ساتھ سنا جاتا ہے ’’گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا گوری ڈر تمہیں کس کا ہے؟ تیرا تے رنگ گورا ہے‘‘ یہ گورا رنگ آج بھی کاسمیٹک انڈسٹری کی بہت بڑی مارکیٹ بنا ہوا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے الیکٹرانک
مزید پڑھیے








اہم خبریں